EN हिंदी
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے | شیح شیری
kisi ko apne amal ka hisab kya dete

غزل

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

منیر نیازی

;

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے

ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انہیں بس ایک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے

شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے

منیرؔ دشت شروع سے سراب آسا تھا
اس آئنے کو تمنا کی آب کیا دیتے