EN हिंदी
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو | شیح شیری
ashk-e-rawan ki nahr hai aur hum hain dosto

غزل

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

منیر نیازی

;

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو

پھرتے ہیں مثل موج ہوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو

شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کی پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو

آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو