اپنے اندر کے اندھیرے کو جلایا میں نے
کون کہتا ہے کہ طوفان اٹھایا میں نے
تو مجھے زہر پلاتی ہے یہ تیرا شیوہ
اے مری رات تجھے خون پلایا میں نے
اس خرابے کے مقدر میں فقط سناٹا
اپنی تنہائی کو اک جسم بنایا میں نے
کوئی ٹکرائے تو اس ہجر زدہ موسم میں
رات جنگل میں بہت خود کو جلایا میں نے

غزل
اپنے اندر کے اندھیرے کو جلایا میں نے
معید رشیدی