EN हिंदी
اپنے اندر کے اندھیرے کو جلایا میں نے | شیح شیری
apne andar ke andhere ko jalaya maine

غزل

اپنے اندر کے اندھیرے کو جلایا میں نے

معید رشیدی

;

اپنے اندر کے اندھیرے کو جلایا میں نے
کون کہتا ہے کہ طوفان اٹھایا میں نے

تو مجھے زہر پلاتی ہے یہ تیرا شیوہ
اے مری رات تجھے خون پلایا میں نے

اس خرابے کے مقدر میں فقط سناٹا
اپنی تنہائی کو اک جسم بنایا میں نے

کوئی ٹکرائے تو اس ہجر زدہ موسم میں
رات جنگل میں بہت خود کو جلایا میں نے