آج کچھ صورت افلاک جدا لگتی ہے
دیکھتا ہوں تری جانب تو گھٹا لگتی ہے
زندگی ہم ترے کوچے میں چلے آئے تو ہیں
تیرے کوچے کی ہوا ہم سے خفا لگتی ہے
شب کی آہٹ سے یہاں چونک گیا ہے کوئی
یہ بھی شاید مرے دل ہی کی خطا لگتی ہے
میں زمینوں کی لکیروں میں الجھتا کیسے
آسمانوں سے مری گردش پا لگتی ہے
کیا ملے گا تجھے میلے میں بھٹکنے والے
ان دکانوں میں فقط ایک صدا لگتی ہے

غزل
آج کچھ صورت افلاک جدا لگتی ہے
معید رشیدی