یہ ہجرتوں کے تماشے، یہ قرض رشتوں کے
میں خود کو جوڑتے رہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں
مری انا مجھے ہر بار روک لیتی ہے
بس ایک بات ہے کہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں
زمیں کا کرب، لہو، درد، گردش پیہم
اک اژدحام ہے، سہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں
میں اک ندی ہوں مری ذات اک سمندر ہے
میں اپنی خاک پہ بہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں

غزل
یہ ہجرتوں کے تماشے، یہ قرض رشتوں کے (ردیف .. ن)
معید رشیدی