لگتا ہے تباہی مری قسمت سے لگی ہے
یہ کون سی آندھی مرے اندر سے اٹھی ہے
اس بار اجالوں نے مجھے گھیر لیا تھا
اس بار مری رات مرے ساتھ چلی ہے
کیسے کوئی بستی مرے اندر اتر آئے
اس بار تو تنہائی مری جاگ رہی ہے
کیسے کوئی دریا مرے سینے سے گزر جائے
رستے میں انا کی مری دیوار کھڑی ہے
ویران حویلی کی طرح اب مرے اندر
بھٹکی ہوئی روحوں کی صدا گونج رہی ہے
اس بار اندھیرا مرے نس نس میں بھرا ہے
اس بار چراغوں سے شکایت بھی بڑی ہے

غزل
لگتا ہے تباہی مری قسمت سے لگی ہے
معید رشیدی