EN हिंदी
ساری حیرت ہے مری ساری ادا اس کی ہے | شیح شیری
sari hairat hai meri sari ada uski hai

غزل

ساری حیرت ہے مری ساری ادا اس کی ہے

جاوید اختر

;

ساری حیرت ہے مری ساری ادا اس کی ہے
بے گناہی ہے مری اور سزا اس کی ہے

میرے الفاظ میں جو رنگ ہے وہ اس کا ہے
میرے احساس میں جو ہے وہ فضا اس کی ہے

شعر میرے ہیں مگر ان میں محبت اس کی
پھول میرے ہیں مگر باد صبا اس کی ہے

اک محبت کی یہ تصویر ہے دو رنگوں میں
شوق سب میرا ہے اور ساری حیا اس کی ہے

ہم نے کیا اس سے محبت کی اجازت لی تھی
دل شکن ہی سہی پر بات بجا اس کی ہے

ایک میرے ہی سوا سب کو پکارے ہے کوئی
میں نے پہلے ہی کہا تھا یہ صدا اس کی ہے

خون سے سینچی ہے میں نے جو زمیں مر مر کے
وہ زمیں ایک ستم گر نے کہا اس کی ہے

اس نے ہی اس کو اجاڑا ہے اسے لوٹا ہے
یہ زمیں اس کی اگر ہے بھی تو کیا اس کی ہے