زباں سے بات نکلی اور پرائی ہو گئی سچ ہے
عبث اشعار کو کرتے ہیں ہم تشہیر پہلے سے
حاتم علی مہر
گلزار میں پھر کوئی گل تازہ کھلا کیا
گھبرائی سی پھرتی ہے تو اے باد صبا کیا
حاتم علی مہر
اپنا باطن خوب ہے ظاہر سے بھی اے جان جاں
آنکھ کے لڑنے سے پہلے جی لڑا بیٹھے ہیں ہم
حاتم علی مہر
بے قراری روز و شب کرنے لگا
مہرؔ اب تو دل غضب کرنے لگا
حاتم علی مہر
بوسے لیتے ہیں چشم جاناں کے
ہم ہرن کا شکار کرتے ہیں
حاتم علی مہر
در بہ در مارا پھرا میں جستجوئے یار میں
زاہد کعبہ ہوا رہبان بت خانہ ہوا
حاتم علی مہر
دیوانہ ہوں پر کام میں ہوشیار ہوں اپنے
یوسف کا خیال آیا جو زنداں نظر آیا
حاتم علی مہر
دونوں اسی کے بندے ہیں یکتا ہے وہ کریم
اے چشم تر ہے تو بھی بڑی آشنا پرست
حاتم علی مہر
فصل گل آئی تو کیا بے سر و ساماں ہیں ہم
شیشہ و جام نہیں ساقئ گل فام نہیں
حاتم علی مہر