EN हिंदी
وارد کوہ بیاباں جب میں دیوانہ ہوا | شیح شیری
warid koh-e-bayaban jab mein diwana hua

غزل

وارد کوہ بیاباں جب میں دیوانہ ہوا

حاتم علی مہر

;

وارد کوہ بیاباں جب میں دیوانہ ہوا
کوہ کن سے دوستی مجنوں سے یارانہ ہوا

وحشت افزا کس قدر اپنا بھی افسانہ ہوا
میرا قصہ سنتے سنتے قیس دیوانہ ہوا

خار صحرا پر خراماں جب میں دیوانہ ہوا
خون پا سے رشک پائیں باغ ویرانہ ہوا

آنکھ نرگس سے لڑا کر آشنا ہی عندلیب
اے گل تر ایک میں اور سبزہ بیگانہ ہوا

پہنئے کفنی قناعت ہے لباس فقیر میں
کب تبدیل اس کو شکل رخت شاہانہ ہوا

کل وہاں پر ہووے گا گور غریباں کا مقام
آج جس جا پر بنا قصر امیرانہ ہوا

بیعت‌ دست سبو کا پس پیالا پی لیا
تاک کا شجرہ ملا مشرب بھی رندانہ ہوا

شمع کوکل دیکھتے ہی انجمن میں پھٹک گیا
اک جلے تن عاشقوں میں ہم سا پروانہ ہوا

ٹل گئی سر سے بلا اپنا مقدر کھل گیا
موئے سر میں آج دست یار کا شانہ ہوا

اب کہیں کوئی ٹھکانہ ہی نہیں جز کوئے یار
مرتد کعبہ ہوا مردود بت خانہ ہوا

جام کوثر ساقیٔ کوثر بھی دیں گے حشر میں
دست ساقی سے عنایت مجھ کو پیمانہ ہوا

کہر کی قطبیں ہیں اے مہ تری تسبیح میں
کوکب سیارہ ساں روشن ہر اک دانہ ہوا

کون ایسا ہے جو مجھ بیکس کی دل داری کرے
درپئے جاں دوست دشمن اپنا بیگانہ ہوا

خوب ہی پکڑے یہ کافر بھی بلا کی سانپ تھے
پنجہ افسون گر کا زلفوں میں تری شانہ ہوا

تم بتا دو کس جگہ رکھے ہیں دل عشاق کے
ڈھونڈھ لوں گا آپ میرا دل ہی پہچانا ہوا

سوزن‌ عیسیٰ نے اس کے پاؤں کے موزے سیے
پنجۂ خورشید حاضر لے کے دستانہ ہوا

چاہتا ہوں اپنی زنجیریں جنوں کے جوش میں
رزق میرے واسطے زنجیر کا دانہ ہوا

در بہ در مارا پھرا میں جستجوئے یار میں
زاہد کعبہ ہوا رہبان بت خانہ ہوا

نام پر مجھ بادہ کش کے صاد چشم مست ہے
نامۂ اعمال میرا خط پیمانہ ہوا

میرے گھر آیا ہے میرے شعر سننے کو وہ مہرؔ
غیرت بیت الشرف اپنا بھی کاشانہ ہوا