گل بانگ تھی گلوں کی ہمارا ترانہ تھا
اپنا بھی اس چمن میں کبھی آشیانہ تھا
حاتم علی مہر
عین کعبہ میں ہے مستوں کی جگہ
کہہ رہی ہیں تہہ ابرو آنکھیں
حاتم علی مہر
ہم بھی باتیں بنایا کرتے ہیں
شعر کہنا مگر نہیں آتا
حاتم علی مہر
ہم مہرؔ محبت سے بہت تنگ ہیں اب تو
روکیں گے طبیعت کو جو رک جائے تو اچھا
حاتم علی مہر
جنت کی نعمتوں کا مزا واعظوں کو ہو
ہم تو ہیں محو لذت بوس و کنار میں
حاتم علی مہر
جواں رکھتی ہے مے دیکھے عجب تاثیر پانی میں
پلاتا ہے مرا ساقی مجھے اکسیر پانی میں
حاتم علی مہر
کافر عشق ہوں مشتاق شہادت بھی ہوں
کاش مل جائے تری تیغ کا زنار کہیں
حاتم علی مہر
کرتے ہیں شوق دید میں باتیں ہوا سے ہم
جاتے ہیں کوئے یار میں پہلے صبا سے ہم
حاتم علی مہر
خوبروئی پہ ہے کیا ناز بتان لندن
ہیں فقط روئی کے گالوں کی طرح گال سفید
حاتم علی مہر