EN हिंदी
چین پہلو میں اسے صبح نہیں شام نہیں | شیح شیری
chain pahlu mein use subh nahin sham nahin

غزل

چین پہلو میں اسے صبح نہیں شام نہیں

حاتم علی مہر

;

چین پہلو میں اسے صبح نہیں شام نہیں
ایک دم بھی دل بیمار کو آرام نہیں

رخ پر نور نہیں زلف سیہ فام نہیں
وہ زمانہ نہیں وہ صبح نہیں شام نہیں

شہروں شہروں مری رسوائی کا شہرا پہنچا
مجھ سا دنیا میں کوئی عاشق بد نام نہیں

چاند ہی تاروں کی جھرمٹ میں ذرا دیکھ اے دل
گوں میں شوخ‌‌ نصارا کی یہ بو تام نہیں

واعظوں جائے جہنم میں فضائے جنت
خار ہیں گل میری نظروں میں جو گلفام نہیں

نالے کرتا ہوں کبھی یا کبھی تدبیر وصال
اور تو ہجر کی شب میں مجھے کچھ کام نہیں

فصل گل آئی تو کیا بے سر و ساماں ہیں ہم
شیشہ و جام نہیں ساقئ گل فام نہیں

دل گیا دین گیا جان گئی الفت میں
اور آغاز ہی دیکھا ابھی انجام نہیں

بوسے دو تین تو لے لینے دی مجھ کو للٰلہ
کام کے وقت نہ کر او بت خود کام نہیں

لخلخلہ کی عوض اس زلف کی بو سونگھوں گا
ہے تپ عشق میں سودا مجھے سرسام نہیں

نزع میں دیکھ کے جیتا ہوں ترے کوٹھے کو
لب عیسیٰ ہے یہ اے جان لب بام نہیں

مہرؔ بے لطف ہے بزم‌ شعرا بے معشوق
بلبلیں چہچہے میں ہیں کوئی گلفام نہیں