کعبہ و بت خانہ والوں سے جدا بیٹھے ہیں ہم
اک بت ناآشنا سے دل لگا بیٹھے ہیں ہم
آپ سے اپنے کو دیوانہ بنا بیٹھے ہیں ہم
کوئے جاناں چھوڑ کے جنگل میں آ بیٹھے ہیں ہم
کیوں مکدر کر دیا نازک مزاجوں کا مزاج
کوچۂ جاناں سے چل جا اے صبا بیٹھے ہیں ہم
یہ دعا کعبہ میں کرتے ہیں کہ اس بت سے ملا
تیرے دروازہ پر آ کر اے خدا بیٹھے ہیں ہم
وہ تو کہتے ہیں کہ اٹھ جائیں میرے کوچہ سے آپ
ہائے کتنی ہو گئی ہیں بے حیا بیٹھے ہیں ہم
سرگرانی ہے عبث ہم خاکساروں سے تمہیں
یا تو مٹنے کو بسان نقش پا بیٹھے ہیں ہم
اپنا باطن خوب ہے ظاہر سے بھی اے جان جاں
آنکھ کے لڑنے سے پہلے جی لڑا بیٹھے ہیں ہم
میں تو کہتا ہوں کہ بزم غیر ہے یاں سے اٹھو
اور وہ کہتے ہیں مجھ سے تجھ کو کیا بیٹھے ہیں ہم
یا ہمیں اٹھوا دیا یا اٹھ گئے ہیں آپ وہ
گر کبھی مجلس میں بھی پاس ان کے جا بیٹھے ہیں ہم
بزم تصویر اپنی صحبت ہو گئی ہے ان دنوں
آشنا دن میں بھی اب نا آشنا بیٹھے ہیں ہم
پڑ گیا ہے ہاتھ جب انگیا پہ اس خوش گات کی
صورت شہباز چڑیا کو دبا بیٹھے ہیں ہم
گہر سے اٹھنے کی نہیں باہر نہیں رکھنے کے پاؤں
یار کے سر کی قسم اے مہرؔ کھا بیٹھے ہیں ہم
غزل
کعبہ و بت خانہ والوں سے جدا بیٹھے ہیں ہم
حاتم علی مہر