عشق میں خواب کا خیال کسے
نہ لگی آنکھ جب سے آنکھ لگی
حسرتؔ عظیم آبادی
اس جہاں میں صفت عشق سے موصوف ہیں ہم
نہ کرو عیب ہمارے ہنر ذاتی کا
حسرتؔ عظیم آبادی
حق ادا کرنا محبت کا بہت دشوار ہے
حال بلبل کا سنا دیکھا ہے پروانے کو ہم
حسرتؔ عظیم آبادی
ہم نہ جانیں کس طرف کعبہ ہے اور کیدھر ہے دیر
ایک رہتی ہے یہی اس در پہ جانے کی خبر
حسرتؔ عظیم آبادی
گل کبھو ہم کو دکھاتی ہے کبھی سرو و سمن
اپنے گل رو بن ہمیں کیا کیا کھجاتی ہے بہار
حسرتؔ عظیم آبادی
دنیا کا و دیں کا ہم کو کیا ہوش
مست آئے و بے خبر گئے ہم
حسرتؔ عظیم آبادی
برا نہ مانے تو اک بات پوچھتا ہوں میں
کسی کا دل کبھی تجھ سے بھی خوش ہوا ہرگز
حسرتؔ عظیم آبادی