کم تر یا بیشتر گئے ہم
اس در سے بہ چشم نم گئے ہم
اک گل نہ چنا ہم اس چمن سے
لے اپنا ہی مشت پر گئے ہم
بیضے سے نکالتے ہی سر حیف
یوں قید قفس میں پڑ گئے ہم
بن یار لگا نہ دل کدھر بھی
جتنا کہ ادھر ادھر گئے ہم
کیا دور سے مسکرا کے سرکا
کل اس کی نظر جو پڑ گئے ہم
دنیا کا و دیں کا ہم کو کیا ہوش
مست آئے و بے خبر گئے ہم
اس جان عزیز نے نہ پوچھا
جیتے ہیں یا کہ مر گئے ہم
کچھ کام نہ تھا ہمیں کسی سے
لینے دل کی خبر گئے ہم
اتنی مدت کے بعد حسرتؔ
کل رات جو اس کے گھر گئے ہم
غزل
کم تر یا بیشتر گئے ہم
حسرتؔ عظیم آبادی