میری اس پیاری جھب سے آنکھ لگی
اس سراپا عجب سے آنکھ لگی
عشق میں خواب کا خیال کسے
نہ لگی آنکھ جب سے آنکھ لگی
خواب میں بھی نہ دیکھا ہم نے لطف
کس سراپا غضب سے آنکھ لگی
جتنے خوش چشم ہیں زمانے میں
رہتی ہے میری سب سے آنکھ لگی
رات ہمسایوں کی نہ صبح تلک
میری افغان شب سے آنکھ لگی
یار آتا نظر نہیں آتا
ہے ادھر میری کب سے آنکھ لگی
رہتی ہے اس نگاہ کافر کی
رنجش بے سبب سے آنکھ لگی
مجھ کو مت دیکھ ہے بلا حسرتؔ
یار عاشق طلب سے آنکھ لگی
غزل
میری اس پیاری جھب سے آنکھ لگی
حسرتؔ عظیم آبادی