دل نے پایا جو مرے مژدہ تری پاتی کا
منہ پھرا سوئے بدن جان بلب آتی کا
یوں تو اے یار دل افروز تو سب کا ہے ولے
داغ جاں سوز نرایا ہے مری چھاتی کا
دل دم آہ سحرخیز چلا جاتا ہے
مطربا چپ ہے تو کیوں وقت ہے پربھاتی کا
دل افسردہ کو ہے سوز دروں سے کیا ربط
کام کیا خانۂ ویراں میں دیے باتی کا
اس جہاں میں صفت عشق سے موصوف ہیں ہم
نہ کرو عیب ہمارے ہنر ذاتی کا
یار سن سن کے سب احوال خراب حسرتؔ
بولا کیا کام ہے یاں ایسے خراباتی کا
غزل
دل نے پایا جو مرے مژدہ تری پاتی کا
حسرتؔ عظیم آبادی