EN हिंदी
جان کر کہتا ہے ہم سے اپنے جانے کی خبر | شیح شیری
jaan kar kahta hai humse apne jaane ki KHabar

غزل

جان کر کہتا ہے ہم سے اپنے جانے کی خبر

حسرتؔ عظیم آبادی

;

جان کر کہتا ہے ہم سے اپنے جانے کی خبر
جی ڈوبا دیتی ہے میرا یہ بہانے کی خبر

اس چمن میں کون ہے دل سوز اپنا تجھ سوا
رکھیو ٹک اے برق میرے آشیانے کی خبر

پوچھتا نیں اپنے کوچے میں تو میرا حال ہائے
لے تھی لیلیٰ دشت میں اپنے دوانے کی خبر

ہیں قفس میں جب سے ہم اس سنگ دل صیاد کے
اشک ہی لیتا ہے میرا آب و دانے کی خبر

ہم نہ جانیں کس طرف کعبہ ہے اور کیدھر ہے دیر
ایک رہتی ہے یہی اس در پہ جانے کی خبر

ہر گل داغ جنوں پر اور ہے کچھ آب و رنگ
پھیر ہے گلشن میں گویا گل کے آنے کی خبر

آج سینے میں مرے دل ہے نپٹ ہی بے قرار
دے ہے حسرتؔ غیر کے گھر اس کے جانے کی خبر