برق کا ٹھیک اگر نشانہ ہو
بند کاہے کو کارخانہ ہو
دیکھنے سننے کا مزہ جب ہے
کچھ حقیقت ہو کچھ فسانہ ہو
موت ہر وقت آنا چاہتی ہے
کوئی حیلہ کوئی بہانہ ہو
راہ سے سنگ و خشت ہٹ جائیں
نیکیوں کا اگر زمانہ ہو
مجھ کو خواب و خیال ہے منزل
قافلہ شوق سے روانہ ہو
کیا تعجب کہ پیچھے پیچھے مرے
آنے والا مرا زمانہ ہو
غزل
برق کا ٹھیک اگر نشانہ ہو
غلام مرتضی راہی