EN हिंदी
برق کا ٹھیک اگر نشانہ ہو | شیح شیری
barq ka Thik agar nishana ho

غزل

برق کا ٹھیک اگر نشانہ ہو

غلام مرتضی راہی

;

برق کا ٹھیک اگر نشانہ ہو
بند کاہے کو کارخانہ ہو

دیکھنے سننے کا مزہ جب ہے
کچھ حقیقت ہو کچھ فسانہ ہو

موت ہر وقت آنا چاہتی ہے
کوئی حیلہ کوئی بہانہ ہو

راہ سے سنگ و خشت ہٹ جائیں
نیکیوں کا اگر زمانہ ہو

مجھ کو خواب و خیال ہے منزل
قافلہ شوق سے روانہ ہو

کیا تعجب کہ پیچھے پیچھے مرے
آنے والا مرا زمانہ ہو