مری میلی ہتھیلی پر تو بچپن سے
غریبی کا کھرا سونا چمکتا ہے
فراغ روہوی
بھول گئے ہر واقعہ بس اتنا ہے یاد
مال و زر پر تھی کھڑی رشتوں کی بنیاد
فراغ روہوی
خوب نبھے گی ہم دونوں میں میرے جیسا تو بھی ہے
تھوڑا جھوٹا میں بھی ٹھہرا تھوڑا جھوٹا تو بھی ہے
فراغ روہوی
کھلی نہ مجھ پہ بھی دیوانگی مری برسوں
مرے جنون کی شہرت ترے بیاں سے ہوئی
فراغ روہوی
کون آتا ہے عیادت کے لیے دیکھیں فراغؔ
اپنے جی کو ذرا ناساز کیے دیتے ہیں
فراغ روہوی
کیسے اپنے پیار کے سپنے ہوں ساکار
تیرے میرے بیچ ہے مذہب کی دیوار
فراغ روہوی
اک دن وہ میرے عیب گنانے لگا فراغؔ
جب خود ہی تھک گیا تو مجھے سوچنا پڑا
فراغ روہوی
ہمارے تن پہ کوئی قیمتی قبا نہ سہی
غزل کو اپنی مگر خوش لباس رکھتے ہیں
فراغ روہوی
ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا
دشت وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں
فراغ روہوی