کہیں سورج کہیں ذرہ چمکتا ہے
اشارے سے ترے کیا کیا چمکتا ہے
فلک سے جب نئی کرنیں اترتی ہیں
گہر سا شبنمی قطرہ چمکتا ہے
اسے دنیا کبھی دریا نہیں کہتی
چمکنے کو تو ہر صحرا چمکتا ہے
ستارہ تو ستارہ ہے مرے بھائی
کبھی تیرا کبھی میرا چمکتا ہے
مری میلی ہتھیلی پر تو بچپن سے
غریبی کا کھرا سونا چمکتا ہے
مشقت کی بدولت ہی جبینوں پر
پسینے کا ہر اک قطرہ چمکتا ہے
قرینے سے تراشا ہی نہ جائے تو
کسی پہلو کہاں ہیرا چمکتا ہے
یہ کیا طرفہ تماشہ ہے سیاست کا
کہیں خنجر کہیں نیزہ چمکتا ہے
تصور میں فراغؔ آٹھوں پہر اب تو
کوئی چہرہ غزل جیسا چمکتا ہے
غزل
کہیں سورج کہیں ذرہ چمکتا ہے
فراغ روہوی