کبھی یقیں سے ہوئی اور کبھی گماں سے ہوئی
ترے حضور رسائی کہاں کہاں سے ہوئی
فلک نہ ماہ منور نہ کہکشاں سے ہوئی
کھلی جب آنکھ ملاقات خاک داں سے ہوئی
نہ فلسفی نہ مفکر نہ نکتہ داں سے ہوئی
ادا جو بات ہمیشہ تری زباں سے ہوئی
کھلی نہ مجھ پہ بھی دیوانگی مری برسوں
مرے جنون کی شہرت ترے بیاں سے ہوئی
جو تیرے نام سے منسوب میرا نام ہوا
تو شہر بھر کو عداوت بھی میری جاں سے ہوئی
سنا کے سب کو اکیلا ہی رو رہا تھا میں
کسی کی آنکھ نہ تر میری داستاں سے ہوئی
جنہیں تھا ڈوبنا ان کو بھی دے دیا رستہ
کبھی کبھی یہ خطا بحر بیکراں سے ہوئی
فراغؔ ہاتھ سے کیا دامن خرد چھوٹا
کہ سر پہ سنگ کی بارش جہاں تہاں سے ہوئی
غزل
کبھی یقیں سے ہوئی اور کبھی گماں سے ہوئی
فراغ روہوی