دیکھا جو آئینہ تو مجھے سوچنا پڑا
خود سے نہ مل سکا تو مجھے سوچنا پڑا
اس کا جو خط ملا تو مجھے سوچنا پڑا
اپنا سا وہ لگا تو مجھے سوچنا پڑا
مجھ کو تھا یہ گماں کہ مجھی میں ہے اک انا
دیکھی تری انا تو مجھے سوچنا پڑا
دنیا سمجھ رہی تھی کہ ناراض مجھ سے ہے
لیکن وہ جب ملا تو مجھے سوچنا پڑا
سر کو چھپاؤں اپنے کہ پیروں کو ڈھانپ لوں
چھوٹی سی تھی ردا تو مجھے سوچنا پڑا
اک دن وہ میرے عیب گنانے لگا فراغؔ
جب خود ہی تھک گیا تو مجھے سوچنا پڑا
غزل
دیکھا جو آئینہ تو مجھے سوچنا پڑا
فراغ روہوی