لبوں کے سامنے خالی گلاس رکھتے ہیں
سمندروں سے کہو ہم بھی پیاس رکھتے ہیں
ہر ایک گام پہ روشن ہوا خدا کا گماں
اسی گماں پہ یقیں کی اساس رکھتے ہیں
ہم اپنے آپ سے پاتے ہیں کوسوں دور اسے
وہی خدا کہ جسے آس پاس رکھتے ہیں
چڑھا کے دار قناعت پہ ہر تمنا کو
جو ایک دل ہے اسے بھی اداس رکھتے ہیں
زیاں پسند ہمارا مزاج ہے ورنہ
نگاہ ہم بھی زمانہ شناس رکھتے ہیں
ہمارے تن پہ کوئی قیمتی قبا نہ سہی
غزل کو اپنی مگر خوش لباس رکھتے ہیں
چلو کہ راہ تمنا میں چل کے ہم بھی فراغؔ
زمین دل پہ غموں کی اساس رکھتے ہیں
غزل
لبوں کے سامنے خالی گلاس رکھتے ہیں
فراغ روہوی