اب کہو کارواں کدھر کو چلے
راستے کھو گئے چراغ جلے
آنسوؤں میں نہا گئیں خوشیاں
روٹھ کر جب وہ آ لگے ہیں گلے
عشق غم کو عبور کر نہ سکا
راستے کارواں کے ساتھ چلے
ہم پہ گزری ہیں ہجر کی راتیں
ہم جہنم میں تھے مگر نہ جلے
تھے محبت کی ابتدا کے قصور
وہ تبسم جو آنسوؤں میں ڈھلے
خاک سے سینکڑوں اگے خورشید
ہے اندھیرا مگر چراغ تلے
چاند ساکت ہے رک گئے تارے
اب وہ آئیں تو غم کی رات ڈھلے
مے کدے کا تو ذکر بھی ہے گناہ
اب حیات حرم پڑی ہے گلے
پرسش حال کا جواب تھا کیا
ہنس پڑے ہم کہ جلد بات ٹلے
غزل
اب کہو کارواں کدھر کو چلے
احسان دانش