EN हिंदी
مرے مٹانے کی تدبیر تھی حجاب نہ تھا | شیح شیری
mere miTane ki tadbir thi hijab na tha

غزل

مرے مٹانے کی تدبیر تھی حجاب نہ تھا

احسان دانش

;

مرے مٹانے کی تدبیر تھی حجاب نہ تھا
وگرنہ کون سے دن حسن بے نقاب نہ تھا

اگرچہ ناز کش ساغر شراب نہ تھا
خمار خانے میں مجھ سا کوئی خراب نہ تھا

کھلا طلسم تمنا تو کھل گیا یہ بھی
کہ اک فریب نظر تھا ترا شباب نہ تھا

خیال دوست تری جلوہ تابیوں کی قسم
جو تو نہ تھا مری دنیا میں آفتاب نہ تھا

ترے فراق کی راتیں تھیں اس قدر مغموم
کہ داغ خاطر محزوں تھا ماہتاب نہ تھا

برا ہو نالۂ پیہم کا کچھ دنوں پہلے
خموش رات کے دل میں یہ پیچ و تاب نہ تھا

نگاہ ملتے ہی غش کھا کے گر پڑیں نظریں
تھی ایک برق مشکل ترا شباب نہ تھا

ازل کے دن سے ہیں ہم مست جلوۂ ساقی
ہمارے سامنے کس روز آفتاب نہ تھا

کچھ اپنے ساز نفس کی نہ قدر کی تو نے
کہ اس رباب سے بہتر کوئی رباب نہ تھا

دل خراب کا احسانؔ اب خدا حافظ
خراب تھا مگر ایسا کبھی خراب نہ تھا