مرے مٹانے کی تدبیر تھی حجاب نہ تھا
وگرنہ کون سے دن حسن بے نقاب نہ تھا
اگرچہ ناز کش ساغر شراب نہ تھا
خمار خانے میں مجھ سا کوئی خراب نہ تھا
کھلا طلسم تمنا تو کھل گیا یہ بھی
کہ اک فریب نظر تھا ترا شباب نہ تھا
خیال دوست تری جلوہ تابیوں کی قسم
جو تو نہ تھا مری دنیا میں آفتاب نہ تھا
ترے فراق کی راتیں تھیں اس قدر مغموم
کہ داغ خاطر محزوں تھا ماہتاب نہ تھا
برا ہو نالۂ پیہم کا کچھ دنوں پہلے
خموش رات کے دل میں یہ پیچ و تاب نہ تھا
نگاہ ملتے ہی غش کھا کے گر پڑیں نظریں
تھی ایک برق مشکل ترا شباب نہ تھا
ازل کے دن سے ہیں ہم مست جلوۂ ساقی
ہمارے سامنے کس روز آفتاب نہ تھا
کچھ اپنے ساز نفس کی نہ قدر کی تو نے
کہ اس رباب سے بہتر کوئی رباب نہ تھا
دل خراب کا احسانؔ اب خدا حافظ
خراب تھا مگر ایسا کبھی خراب نہ تھا
غزل
مرے مٹانے کی تدبیر تھی حجاب نہ تھا
احسان دانش