EN हिंदी
باقی صدیقی شیاری | شیح شیری

باقی صدیقی شیر

33 شیر

کان پڑتی نہیں آواز کوئی
دل میں وہ شور بپا ہے اپنا

باقی صدیقی




اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے

باقی صدیقی




ہو گئے چپ ہمیں پاگل کہہ کر
جب کسی نے بھی نہ سمجھا ہم کو

باقی صدیقی




ہر یاد ہر خیال ہے لفظوں کا سلسلہ
یہ محفل نوا ہے یہاں بولتے رہو

باقی صدیقی




ہر نئے حادثے پہ حیرانی
پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی

باقی صدیقی




ہم کہ شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی
تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو

باقی صدیقی




ہائے وہ باتیں جو کہہ سکتے نہیں
اور تنہائی میں دہراتے ہیں ہم

باقی صدیقی




ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

باقی صدیقی




ایک دیوار اٹھانے کے لیے
ایک دیوار گرا دیتے ہیں

باقی صدیقی