EN हिंदी
کیا پتا ہم کو ملا ہے اپنا | شیح شیری
kya pata hum ko mila hai apna

غزل

کیا پتا ہم کو ملا ہے اپنا

باقی صدیقی

;

کیا پتا ہم کو ملا ہے اپنا
اور کچھ نشہ چڑھا ہے اپنا

کان پڑتی نہیں آواز کوئی
دل میں وہ شور بپا ہے اپنا

اب تو ہر بات پہ ہوتا ہے گماں
واقعہ کوئی سنا ہے اپنا

ہر بگولے کو ہے نسبت ہم سے
دشت تک سایہ گیا ہے اپنا

خود ہی دروازے پہ دستک دی ہے
خود ہی در کھول دیا ہے اپنا

دل کی اک شاخ بریدہ کے سوا
چمن دہر میں کیا ہے اپنا

کوئی آواز کوئی ہنگامہ
قافلہ رکنے لگا ہے اپنا

اپنی آواز پہ چونک اٹھتا ہے
دل میں جو چور چھپا ہے اپنا

کون تھا مد مقابل باقیؔ
خود پہ ہی وار پڑا ہے اپنا