EN हिंदी
وہ اندھیرا ہے جدھر جاتے ہیں ہم | شیح شیری
wo andhera hai jidhar jate hain hum

غزل

وہ اندھیرا ہے جدھر جاتے ہیں ہم

باقی صدیقی

;

وہ اندھیرا ہے جدھر جاتے ہیں ہم
اپنی دیواروں سے ٹکراتے ہیں ہم

کاٹتے ہیں رات جانے کس طرح
صبح دم گھر سے نکل آتے ہیں ہم

بند کمرے میں سکوں ملنے لگا
جب ہوا چلتی ہے گھبراتے ہیں ہم

ہائے وہ باتیں جو کہہ سکتے نہیں
اور تنہائی میں دہراتے ہیں ہم

زندگی کی کشمکش باقیؔ نہ پوچھ
نیند جب آتی ہے سو جاتے ہیں ہم