ہم کہ شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی
تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو
باقی صدیقی
باقیؔ جو چپ رہوگے تو اٹھیں گی انگلیاں
ہے بولنا بھی رسم جہاں بولتے رہو
باقی صدیقی
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
باقی صدیقی
ایک دیوار اٹھانے کے لیے
ایک دیوار گرا دیتے ہیں
باقی صدیقی
دنیا نے ہر بات میں کیا کیا رنگ بھرے
ہم سادہ اوراق الٹتے جاتے ہیں
باقی صدیقی
دوستی خون جگر چاہتی ہے
کام مشکل ہے تو رستہ دیکھو
باقی صدیقی
دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں
کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں
باقی صدیقی
دل میں جب بات نہیں رہ سکتی
کسی پتھر کو سنا دیتے ہیں
باقی صدیقی
دل کی دیوار گر گئی شاید
اپنی آواز کان میں آئی
باقی صدیقی