EN हिंदी
باقی صدیقی شیاری | شیح شیری

باقی صدیقی شیر

33 شیر

دنیا نے ہر بات میں کیا کیا رنگ بھرے
ہم سادہ اوراق الٹتے جاتے ہیں

باقی صدیقی




دوستی خون جگر چاہتی ہے
کام مشکل ہے تو رستہ دیکھو

باقی صدیقی




دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں
کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں

باقی صدیقی




دل میں جب بات نہیں رہ سکتی
کسی پتھر کو سنا دیتے ہیں

باقی صدیقی




دل کی دیوار گر گئی شاید
اپنی آواز کان میں آئی

باقی صدیقی




بند کلیوں کی ادا کہتی ہے
بات کرنے کے ہیں سو پیرائے

باقی صدیقی