EN हिंदी
ان کا یا اپنا تماشا دیکھو | شیح شیری
un ka ya apna tamasha dekho

غزل

ان کا یا اپنا تماشا دیکھو

باقی صدیقی

;

ان کا یا اپنا تماشا دیکھو
جو دکھاتا ہے زمانہ دیکھو

وقت کے پاس ہیں کچھ تصویریں
کوئی ڈوبا ہے کہ ابھرا دیکھو

رنگ ساحل کا نکھر آئے گا
دو گھڑی جانب دریا دیکھو

تلملا اٹھا گھنا سناٹا
پھر کوئی نیند سے چونکا دیکھو

ہم سفر غیر ہوئے جاتے ہیں
فاصلہ رہ گیا کتنا دیکھو

برف ہو جاتا ہے صدیوں کا لہو
ایک ٹھہرا ہوا لمحہ دیکھو

رنگ اڑتے ہیں تبسم کی طرح
آئنہ خانوں کا دعویٰ دیکھو

دل کی بگڑی ہوئی صورت ہے یہاں
اب کوئی اور خرابہ دیکھو

یا کسی پردے میں گم ہو جاؤ
یا اٹھا کر کوئی پردا دیکھو

دوستی خون جگر چاہتی ہے
کام مشکل ہے تو رستہ دیکھو

سادہ کاغذ کی طرح دل چپ ہے
حاصل رنگ تمنا دیکھو

یہی تسکین کی صورت ہے تو پھر
چار دن غم کو بھی اپنا دیکھو

غم گساروں کا سہارا کب تک
خود پہ بھی کر کے بھروسا دیکھو

اپنی نیت پہ نہ جاؤ باقیؔ
رخ زمانے کی ہوا کا دیکھو