سمجھ کے رستہ ادھر سے گزرنے والوں نے
کہیں کا چھوڑا نہ دل سے اترنے والوں نے
بنے بنائے ہوئے راستوں پہ چلتے ہوئے
خدا بنائے خدائی سے ڈرنے والوں نے
ہزار چھید کئے جھولیوں میں اپنوں کی
تمہارے نام پہ خیرات کرنے والوں نے
طویل عمر کی ڈھیروں دعائیں بھیجی ہیں
مرے چراغ کو پانی سے بھرنے والوں نے
ہماری آنکھ میں اک بوند بھی نہیں چھوڑی
مثال ابر فلک پر ابھرنے والوں نے
یہ کس طرح کے عجب واہموں میں ڈال دیا
شراب و شہد کی تصدیق کرنے والوں نے
زبان بندی پہ مجبور ہو گئی دنیا
وہ کھیل کھیلا ہے حیرت سے مرنے والوں نے
چراغ راہ کو غارت گری سکھائی ہے
ہوائے شہر پہ الزام دھرنے والوں نے
غزل
سمجھ کے رستہ ادھر سے گزرنے والوں نے
ازلان شاہ