EN हिंदी
دنیا کے لئے زہر نہ کھالیں کوئی ہم بھی | شیح شیری
duniya ke liye zahr na khaalen koi hum bhi

غزل

دنیا کے لئے زہر نہ کھالیں کوئی ہم بھی

ازلان شاہ

;

دنیا کے لئے زہر نہ کھالیں کوئی ہم بھی
اس بات پہ پھر شرط لگا لیں کوئی ہم بھی

بہتی ہوئی گنگا ترے پانی میں نہا کر
اپنے لیے نیکی نہ کما لیں کوئی ہم بھی

لگتا ہے یہی ویسے گزارہ نہیں ہوگا
جھوٹی ہی سہی بات بنا لیں کوئی ہم بھی

ہر سال منائے گی بڑی دھوم سے دنیا
اس عشق کو تہوار بنا لیں کوئی ہم بھی

دل میں لیے پھرتے ہیں بس اتنی سی یہ خواہش
بالوں میں ترے پھول لگا لیں کوئی ہم بھی

تو بات نہیں سنتا یہی حل ہے پھر اس کا
جھگڑے کے لیے وقت نکالیں کوئی ہم بھی