ایک ہونے کی قسمیں کھائی جائیں
اور آخر میں کچھ دیا لیا جائے
اظہر فراغ
آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں
ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں
اظہر فراغ
دلیل اس کے دریچے کی پیش کی میں نے
کسی کو پتلی گلی سے نہیں نکلنے دیا
اظہر فراغ
بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے
ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے
اظہر فراغ
بتا رہا ہے جھٹکنا تری کلائی کا
ذرا بھی رنج نہیں ہے تجھے جدائی کا
اظہر فراغ
بہت سے سانپ تھے اس غار کے دہانے پر
دل اس لئے بھی خزانہ شمار ہونے لگا
اظہر فراغ
بہت غنیمت ہیں ہم سے ملنے کبھی کبھی کے یہ آنے والے
وگرنہ اپنا تو شہر بھر میں مکان تالے سے جانا جائے
اظہر فراغ
بدل کے دیکھ چکی ہے رعایا صاحب تخت
جو سر قلم نہیں کرتا زبان کھینچتا ہے
اظہر فراغ
ایسی غربت کو خدا غارت کرے
پھول بھجوانے کی گنجائش نہ ہو
اظہر فراغ