EN हिंदी
بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے | شیح شیری
bhanwar se ye jo mujhe baadban khinchta hai

غزل

بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے

اظہر فراغ

;

بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے
ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے

کسی بدن کی سیاحت نڈھال کرتی ہے
کسی کے ہاتھ کا تکیہ تھکان کھینچتا ہے

نشست کے تو طلب گار ہی نہیں ہم لوگ
ہمارے پاؤں سے کیوں پائیدان کھینچتا ہے

بدل کے دیکھ چکی ہے رعایا صاحب تخت
جو سر قلم نہیں کرتا زبان کھینچتا ہے

دکھا رہا ہے خریدار بن کے آج مجھے
جسے لپیٹ کے رکھوں وہ تھان کھینچتا ہے

چراغوں میں وہ چراغ اس لیے نمایاں ہے
ہم ایسے دیکھنے والوں کا دھیان کھینچتا ہے

یہ سارا جھگڑا ترے انہماک کا ہی تو ہے
سمیٹتا ہے کوئی داستان کھینچتا ہے