کیسے دنیا کا جائزہ کیا جائے
دھیان تجھ سے اگر ہٹا لیا جائے
تیز آندھی میں یہ بھی کافی ہے
پیڑ تصویر میں بچا لیا جائے
ہم جسے چاہیں اپنا کہتے رہیں
وہی اپنا ہے جس کو پا لیا جائے
ایک ہونے کی قسمیں کھائی جائیں
اور آخر میں کچھ دیا لیا جائے
زندگی موت کے دریچے کو
ایک پردہ ہے جب اٹھا لیا جائے
کیوں نہ آج اپنی بے بسی کا فراغؔ
دور سے بیٹھ کر مزہ لیا جائے
غزل
کیسے دنیا کا جائزہ کیا جائے
اظہر فراغ