بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے
ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے
اظہر فراغ
دلیل اس کے دریچے کی پیش کی میں نے
کسی کو پتلی گلی سے نہیں نکلنے دیا
اظہر فراغ
ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں
ہم جو صحراؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں
اظہر فراغ
آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں
ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں
اظہر فراغ
گیلے بالوں کو سنبھال اور نکل جنگل سے
اس سے پہلے کہ ترے پاؤں یہ جھرنا پڑ جائے
اظہر فراغ
گرتے پیڑوں کی زد میں ہیں ہم لوگ
کیا خبر راستہ کھلے کب تک
اظہر فراغ
ہائے وہ بھیگا ریشمی پیکر
تولیا کھردرا لگے جس کو
اظہر فراغ
ہم اپنی نیکی سمجھتے تو ہیں تجھے لیکن
شمار نامۂ اعمال میں نہیں کرتے
اظہر فراغ
ہمارے ظاہری احوال پر نہ جا ہم لوگ
قیام اپنے خد و خال میں نہیں کرتے
اظہر فراغ