یہ لوگ جا کے کٹی بوگیوں میں بیٹھ گئے
سمے کو ریل کی پٹری کے ساتھ چلنے دیا
اظہر فراغ
یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی
لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو
اظہر فراغ
ایک ہونے کی قسمیں کھائی جائیں
اور آخر میں کچھ دیا لیا جائے
اظہر فراغ
اچھے خاصے لوگوں پر بھی وقت اک ایسا آ جاتا ہے
اور کسی پر ہنستے ہنستے خود پر رونا آ جاتا ہے
اظہر فراغ
ایسی غربت کو خدا غارت کرے
پھول بھجوانے کی گنجائش نہ ہو
اظہر فراغ
بدل کے دیکھ چکی ہے رعایا صاحب تخت
جو سر قلم نہیں کرتا زبان کھینچتا ہے
اظہر فراغ
بہت غنیمت ہیں ہم سے ملنے کبھی کبھی کے یہ آنے والے
وگرنہ اپنا تو شہر بھر میں مکان تالے سے جانا جائے
اظہر فراغ
بہت سے سانپ تھے اس غار کے دہانے پر
دل اس لئے بھی خزانہ شمار ہونے لگا
اظہر فراغ
بتا رہا ہے جھٹکنا تری کلائی کا
ذرا بھی رنج نہیں ہے تجھے جدائی کا
اظہر فراغ