دل اجنبی دیس میں لگا ہے
آندھی سے دیے کا رابطہ ہے
ٹوٹے ہوئے لوگ ہیں سلامت
یہ نقل مکانی کا معجزہ ہے
کوئی بھی نہیں یہاں پہ آزاد
دھوکا یہ فقط نگاہ کا ہے
میں جس میں نہیں ہوں اور وہیں ہوں
وہ گھر مری راہ دیکھتا ہے
بڑھ جائیں گی اور الجھنیں کچھ
لوٹ آنے سے فائدہ بھی کیا ہے
جب ڈھونڈ لیا اسے تو جانا
میرا ہی وجود کھو چکا ہے
اشفاقؔ ہر ایک لمحۂ زیست
جینے کا خراج مانگتا ہے
غزل
دل اجنبی دیس میں لگا ہے
اشفاق حسین