EN हिंदी
افق افق نئے سورج نکلتے رہتے ہیں | شیح شیری
ufuq ufuq nae suraj nikalte rahte hain

غزل

افق افق نئے سورج نکلتے رہتے ہیں

اختر ہوشیارپوری

;

افق افق نئے سورج نکلتے رہتے ہیں
دیے جلیں نہ جلیں داغ جلتے رہتے ہیں

مری گلی کے مکیں یہ مرے رفیق سفر
یہ لوگ وہ ہیں جو چہرے بدلتے رہتے ہیں

زمانے کو تو ہمیشہ سفر میں رہنا ہے
جو قافلے نہ چلیں رستے چلتے رہتے ہیں

ہزار سنگ گراں ہو ہزار جبر زماں
مگر حیات کے چشمے ابلتے رہتے ہیں

یہ اور بات کہ ہم میں ہی صبر و ضبط نہیں
یہ اور بات کہ لمحات ٹلتے رہتے ہیں

یہ وقت شام ہے یا رب دل و نظر کی ہو خیر
کہ اس سمے میں تو سائے بھی ڈھلتے رہتے ہیں

کبھی وہ دن تھے زمانے سے آشنائی تھی
اور آئینے سے اب اخترؔ بہلتے رہتے ہیں