EN हिंदी
پہلے تو سوچ کے دوزخ میں جلاتا ہے مجھے | شیح شیری
pahle to soch ke dozaKH mein jalata hai mujhe

غزل

پہلے تو سوچ کے دوزخ میں جلاتا ہے مجھے

اختر ہوشیارپوری

;

پہلے تو سوچ کے دوزخ میں جلاتا ہے مجھے
پھر وہ شیشے میں مرا چہرہ دکھاتا ہے مجھے

شاید اپنا ہی تعاقب ہے مجھے صدیوں سے
شاید اپنا ہی تصور لئے جاتا ہے مجھے

باہر آوازوں کا اک میلہ لگا ہے دیکھو
کوئی اندر سے مگر توڑتا جاتا ہے مجھے

یہی لمحہ ہے کہ میں گر کے شکستہ ہو جاؤں
صورت شیشہ وہ ہاتھوں میں اٹھاتا ہے مجھے

جسم منجملہ آشوب قیامت ٹھہرا
دیکھوں کون آ کے قیامت سے بچاتا ہے مجھے

زلزلہ آیا تو دیواروں میں دب جاؤں گا
لوگ بھی کہتے ہیں یہ گھر بھی ڈراتا ہے مجھے

کتنا ظالم ہے مری ذات کا پیکر اخترؔ
اپنی ہی سانس کی سولی پہ چڑھاتا ہے مجھے