اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو
وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے
اعتبار ساجد
عجب نشہ ہے ترے قرب میں کہ جی چاہے
یہ زندگی تری آغوش میں گزر جائے
اعتبار ساجد
برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں اس نے بات نہ کی
کچھ تو گرد سفر سے بھانپا کچھ آنکھوں سے جان لیا
اعتبار ساجد
بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں
آ مرے دل مرے غم خوار کہیں اور چلیں
اعتبار ساجد
چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ
لوگ زندہ ہیں عجب صورت حالات کے ساتھ
اعتبار ساجد
ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے
ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا
اعتبار ساجد
دیئے منڈیر پہ رکھ آتے ہیں ہم ہر شام نہ جانے کیوں
شاید اس کے لوٹ آنے کا کچھ امکان ابھی باقی ہے
اعتبار ساجد
غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی
ہمارا مسئلہ فقط قلم دوات ہی نہیں
اعتبار ساجد
گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر
اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ
اعتبار ساجد