اسی لیے ہمیں احساس جرم ہے شاید
ابھی ہماری محبت نئی نئی ہے نا
افضل خان
اب جو پتھر ہے آدمی تھا کبھی
اس کو کہتے ہیں انتظار میاں
افضل خان
ہمارے سانس بھی لے کر نہ بچ سکے افضل
یہ خاکدان میں دم توڑتے ہوئے سگریٹ
افضل خان
ہمارا دل ذرا اکتا گیا تھا گھر میں رہ رہ کر
یونہی بازار آئے ہیں خریداری نہیں کرنی
افضل خان
ڈبو رہا ہے مجھے ڈوبنے کا خوف اب تک
بھنور کے بیچ ہوں دریا کے پار ہوتے ہوئے
افضل خان
دالان میں سبزہ ہے نہ تالاب میں پانی
کیوں کوئی پرندہ مری دیوار پہ اترے
افضل خان
چھوڑ کر مجھ کو ترے صحن میں جا بیٹھا ہے
پڑ گئی جیسے ترے سایۂ دیوار میں جان
افضل خان
بچھڑنے کا ارادہ ہے تو مجھ سے مشورہ کر لو
محبت میں کوئی بھی فیصلہ ذاتی نہیں ہوتا
افضل خان
بھاؤ تاؤ میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی
ہاں مگر تجھ سے خریدار کو نا کیسے ہو
افضل خان