ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں
تری یاد آنکھیں دکھانے لگی
عادل منصوری
حمام کے آئینے میں شب ڈوب رہی تھی
سگریٹ سے نئے دن کا دھواں پھیل رہا تھا
عادل منصوری
آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی
کھڑکی سے جو دیکھا تو گلی اونگھ رہی تھی
عادل منصوری
بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا
میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا
عادل منصوری
چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کچھ بولتے نہیں
بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے
عادل منصوری
دریا کے کنارے پہ مری لاش پڑی تھی
اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا
عادل منصوری
دریا کی وسعتوں سے اسے ناپتے نہیں
تنہائی کتنی گہری ہے اک جام بھر کے دیکھ
عادل منصوری
دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا
جھونکا ہوا کا کھڑکی کے پردے ہلا گیا
عادل منصوری
دروازہ کھٹکھٹا کے ستارے چلے گئے
خوابوں کی شال اوڑھ کے میں اونگھتا رہا
عادل منصوری