EN हिंदी
عادل منصوری شیاری | شیح شیری

عادل منصوری شیر

38 شیر

گرتے رہے نجوم اندھیرے کی زلف سے
شب بھر رہیں خموشیاں سایوں سے ہمکنار

عادل منصوری




ہم کو گالی کے لیے بھی لب ہلا سکتے نہیں
غیر کو بوسہ دیا تو منہ سے دکھلا کر دیا

عادل منصوری




ایسے ڈرے ہوئے ہیں زمانے کی چال سے
گھر میں بھی پاؤں رکھتے ہیں ہم تو سنبھال کر

عادل منصوری




حدود وقت سے باہر عجب حصار میں ہوں
میں ایک لمحہ ہوں صدیوں کے انتظار میں ہوں

عادل منصوری




جانے کس کو ڈھونڈنے داخل ہوا ہے جسم میں
ہڈیوں میں راستہ کرتا ہوا پیلا بخار

عادل منصوری




جسم کی مٹی نہ لے جائے بہا کر ساتھ میں
دل کی گہرائی میں گرتا خواہشوں کا آبشار

عادل منصوری




جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر
وہ تصویر باتیں بنانے لگی

عادل منصوری




کب سے ٹہل رہے ہیں گریبان کھول کر
خالی گھٹا کو کیا کریں برسات بھی تو ہو

عادل منصوری




کب تک پڑے رہوگے ہواؤں کے ہاتھ میں
کب تک چلے گا کھوکھلے شبدوں کا کاروبار

عادل منصوری