EN हिंदी
پھیلے ہوئے ہیں شہر میں سائے نڈھال سے | شیح شیری
phaile hue hain shahr mein sae niDhaal se

غزل

پھیلے ہوئے ہیں شہر میں سائے نڈھال سے

عادل منصوری

;

پھیلے ہوئے ہیں شہر میں سائے نڈھال سے
جائیں کہاں نکل کے خیالوں کے جال سے

مشرق سے میرا راستہ مغرب کی سمت تھا
اس کا سفر جنوب کی جانب شمال سے

کیسا بھی تلخ ذکر ہو کیسی بھی ترش بات
ان کی سمجھ میں آئے گی گل کی مثال سے

چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کچھ بولتے نہیں
بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے

رنگوں کو بہتے دیکھیے کمرے کے فرش پر
کرنوں کے وار روکئے شیشے کی ڈھال سے

آنکھوں میں آنسوؤں کا کہیں نام تک نہیں
اب جوتے صاف کیجئے ان کے رومال سے

چہرہ بجھا بجھا سا پریشان زلف زلف
اللہ دشمنوں کو بچائے وبال سے

پھر پانیوں میں نقرئی سائے اتر گئے
پھر رات جگمگا اٹھی چاندی کے تھال سے