آئی ہوا نہ راس جو سایوں کے شہر کی
ہم ذات کی قدیم گپھاؤں میں کھو گئے
عبد الاحد ساز
اب آ کے قلم کے پہلو میں سو جاتی ہیں بے کیفی سے
مصرعوں کی شوخ حسینائیں سو بار جو روٹھتی منتی تھیں
عبد الاحد ساز
بام و در کی روشنی پھر کیوں بلاتی ہے مجھے
میں نکل آیا تھا گھر سے اک شب تاریک میں
عبد الاحد ساز
بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی
وحشت سی ہونے لگتی ہے یادوں سے
عبد الاحد ساز
بیاض پر سنبھل سکے نہ تجربے
پھسل پڑے بیان بن کے رہ گئے
عبد الاحد ساز
بول تھے دوانوں کے جن سے ہوش والوں نے
سوچ کے دھندلکوں میں اپنا راستہ پایا
عبد الاحد ساز
برا ہو آئینے ترا میں کون ہوں نہ کھل سکا
مجھی کو پیش کر دیا گیا مری مثال میں
عبد الاحد ساز
داد و تحسین کی بولی نہیں تفہیم کا نقد
شرط کچھ تو مرے بکنے کی مناسب ٹھہرے
عبد الاحد ساز
دوست احباب سے لینے نہ سہارے جانا
دل جو گھبرائے سمندر کے کنارے جانا
عبد الاحد ساز