بے ثباتی چمن دہر کی ہے جن پہ کھلی
ہوس رنگ نہ وہ خواہش بو کرتے ہیں
عیش دہلوی
سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے
اصغر گونڈوی
کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
میر تقی میر
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
breathe here softly as with fragility here all is fraught
in this workshop of the world where wares of glass are wrought
میر تقی میر
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
ندا فاضلی
بے ثباتی زمانے کی ناچار
کرنی مجھ کو بیان پڑتی ہے
محمد رفیع سودا
دنیا ہے خواب حاصل دنیا خیال ہے
انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں
سیماب اکبرآبادی