آسماں اور زمیں کی وسعت دیکھ
میں ادھر بھی ہوں اور ادھر بھی ہوں
تہذیب حافی
اپنی مستی میں بہتا دریا ہوں
میں کنارہ بھی ہوں بھنور بھی ہوں
تہذیب حافی
بتا اے ابر مساوات کیوں نہیں کرتا
ہمارے گاؤں میں برسات کیوں نہیں کرتا
تہذیب حافی
داستاں ہوں میں اک طویل مگر
تو جو سن لے تو مختصر بھی ہوں
تہذیب حافی
اک ترا ہجر دائمی ہے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ہے مجھے
تہذیب حافی
اس لیے روشنی میں ٹھنڈک ہے
کچھ چراغوں کو نم کیا گیا ہے
تہذیب حافی
میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر
یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے
تہذیب حافی
میں جس کے ساتھ کئی دن گزار آیا ہوں
وہ میرے ساتھ بسر رات کیوں نہیں کرتا
تہذیب حافی
میں کہ کاغذ کی ایک کشتی ہوں
پہلی بارش ہی آخری ہے مجھے
تہذیب حافی