کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہے
تیرے جانے کا غم کیا گیا ہے
تا قیامت ہرے بھرے رہیں گے
ان درختوں پہ دم کیا گیا ہے
اس لیے روشنی میں ٹھنڈک ہے
کچھ چراغوں کو نم کیا گیا ہے
کیا یہ کم ہے کہ آخری بوسہ
اس جبیں پر رقم کیا گیا ہے
پانیوں کو بھی خواب آنے لگے
اشک دریا میں ضم کیا گیا ہے
ان کی آنکھوں کا تذکرہ کر کے
میری آنکھوں کو نم کیا گیا ہے
دھول میں اٹ گئے ہیں سارے غزال
اتنی شدت سے رم کیا گیا ہے
غزل
کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہے
تہذیب حافی